Sad quotes often reflect the rawness and complexity of human emotion, offering a voice to the sorrow, loneliness, and heartache we sometimes struggle to express. These quotes delve into the darker aspects of life, shedding light on the pain of loss, unspoken regrets, and the quiet moments of sadness that we all face. While they acknowledge the weight of suffering, they also highlight the resilience of the human spirit and the ways in which pain can shape us. Sad quotes can be a reminder that it’s okay to feel vulnerable and that sadness is a part of the healing process. They connect us to the universal experience of heartache and serve as a testament to our strength, encouraging us to find meaning and hope even in our darkest times.

لوٹ کر کارواں سر منزل
ظلم کی تو نے انتہا کی ہے

فلک کو آج گھنے بادلوں نے گھیرا ہے
ہماری مانگ ہے درکار کہکشاں کے لیے

تلاش تھی ایک گمشدہ کی
اسی لیے در بدر گئی ہوں

جو تم نے دل کی زمیں پر ابھی کیا تعمیر
ستارے توڑ کے لاؤ اُس آسماں کے لیے

سر پہ یوں آن پڑا ہے تری یادوں کا سفر
راستہ خود کو کئی بار دکھایا میں نے

یہ کس مقام پہ لائی ہے بے خودی ہم کو
یقین کی حد کو کھلا رکھتے ہیں گماں کے لیے

گو دبے پاؤں چلی آئی تری یاد مگر
نیند سے خود کو کئی بار جگایا میں نے

عذاب کتنے اتر آئے اپنی جاں کے لیے
کہ ہم ہی رہ گئے دنیا میں امتحاں کے لیے

اُن سے آخر مجھے کرنا ہی پڑا سمجھوتا
دل کے زخموں کو کئی بار ہنسایا میں نے

میں نے تو اس زمانے کو دیکھا ہے غور سے
بہتر یہی ہے اپنا الگ سے جہاں بنا

مل جائے سکوں دل کو دوا کیوں نہیں دیتے
ہو جاؤں میں اچھی، یہ دُعا کیوں نہیں دیتے

سوکھے ہوئے شجر کی طرح بے ثبات ہوں
ایسے میں کوئی بھی نہ مرا ترجماں بنا

میں رہرو منزل ہوں، تو کل ہے تمہی پر!
ایسے میں بھی، منزل کا پتہ کیوں نہیں دیتے

نام و نشان اُس کا چمن میں نہیں رہا
جس شاخ پر تھا میرا کبھی آشیاں بنا

اقرار ہے مجھ کو کہ مجھے تم سے ہے اُلفت
مجرم ہوں تمہاری تو سزا کیوں نہیں دیتے

وہ بھول کر بھی اب ہمیں کرتا نہیں ہے یاد
دشمن ہمارا جس کے لیے آسماں بنا

جلتا ہے بدن میرا بس اب ڈوبی ہیں نبضیں
تم ایسے میں دامن کی ہوا کیوں نہیں دیتے

میرا اپنا کوئی کمال نہیں
رحمت ایزدی سے زندہ ہوں

میری ہو فقط میری یہ اقرار ہے تم کو
پھر سارے زمانے کو بتا کیوں نہیں دیتے

تو مری چشم تر سے دور سہی
میں تری دلبری سے زندہ ہوں

کب تک یہ تماشا ہو؟ تماشائی ہوں رخصت
یہ آخری پردہ بھی گرا کیوں نہیں دیتے

جس سے روشن ہے آفتاب حیات
میں اُسی روشنی سے زندہ ہوں

ترے در تک رسائی مانگتے ہیں
کہاں زہر جدائی مانگتے ہیں

یہ نہیں میں، خوشی سے زندہ ہوں
اک غم زندگی سے زندہ ہوں

بھول جاؤ اُسے نہ یاد کرو
کہیں آخری خطا ہے کوئی

کبھی انجام وہ میرا بھی دیکھیں
جو تجھ سے آشنائی مانگتے ہیں

مجھ کو اس بے بسی سے کیا نسبت
دل کے آنگن میں دل ربا ہے کوئی

گنوائیں کتنی شامیں تیرے غم میں
کہا پھر بھی رہائی مانگتے ہیں

مرگ تہذیب آرزو تو به
زندگی جس طرح سزا ہے کوئی

رقیب اب دل پہ تیرا نام لکھنے
ہمیں سے روشنائی مانگتے ہیں

پھر اُسے یاد کر رہی ہوں میں
اوج پر ہے مرا جنوں پھر سے

بہت غمگین ہے پت جھڑ کا
موسم آنکھوں که دریا میری آن سے بہے ہیں

بیچ منجدھار میں جو چھوڑ گیا
اک نظر اُس کو دیکھ لوں پھر سے

تمہاری یاد کے خوش رنگ تارے
فلک کی گود میں بکھرے پڑے ہیں

دیکھ کر میری آنکھ میں آنسو
رحم کھانے لگا وہ کیوں پھر سے