Deep Sad Quotes

Deep sad quotes often capture the raw, unspoken emotions that come with heartbreak, loss, and moments of inner struggle. They resonate with our deepest vulnerabilities, giving voice to the feelings we sometimes can’t express. These quotes don’t just highlight sadness; they also reveal the complexity of the human experience—the way pain can shape us, teach us, and even lead to unexpected growth. While they acknowledge the depths of sorrow, these quotes often carry a sense of quiet wisdom, reminding us that sadness is a natural part of life and that, like all emotions, it too shall pass. They offer comfort, understanding, and a sense of shared experience, showing us that we are never truly alone in our pain.

بہار آئے گی غنچے پھول کلیاں مسکرائیں گی
مجھے بھی یاد کر کے دو گھڑی کو مسکرانا تم

قسمیں وعدے پیار کے دعوے پل بھر میں وہ تو ڑ گیا
منزل تک پہنچانے والا رستے ہی میں چھوڑ گیا

جو دن گزرے ہیں اچھے تھے، وہ جذبے اپنے بچے تھے
میں عنواں ڈھونڈ لاتی ہوں مگر لکھنا فسانہ تم

وہ جو دامن پھولوں سے بھرنے کی باتیں کرتا تھا
آخر آخر پت جھڑ سے وہ میرا رشتہ جوڑ گیا

یہ دنیا ہے یہاں ہر راز کی تشہیر ہوتی ہے
نہ بھولے سے کسی کو رازداں اپنا بنانا تم

میں جو نظمیں غزلیں لکھتی اُن کو امر ہو جانا تھا
لیکن وقت گزرنے والا جیون کا رُخ موڑ گیا

کبھی یہ جی میں آتا ہے میں گہری نیند سو جاؤں
میری پلکوں پہ رکھ کے انگلیاں مجھ کو جگانا تم

اُس کے خط کو میری سہیلی نے جب مجھ سے چھینا تھا
سرخ سارنگ حیا کا میرے رخساروں پہ چھوڑ گیا

تمہیں حق ہے جفاؤں کا، جو چاہے دو، سزاؤں کا
وفاؤں کی قسم میری وفا مت آزمانا تم

ہر تمنا، میری ہر خواہش ادھوری رہ گئی
زندگی میں جو بھی کی کاوش ادھوری رہ گئی

اگر پوچھے کوئی ترک تعلق کا سبب تم سے
چھپا کر جھوٹ کو اپنے بنا لینا بہانہ تم

آج پھر محفل میں مجھ کو ضبط کرنا پڑ گیا
آنسوؤں کی کم ادا بارش ادھوری رہ گئی

وقت نے سب ہدف بدل ڈالے
تم بھی اب تیر کو بدل ڈالو

غم کے بادل سوچ کے سورج کے آگے آگئے
آرزوؤں کی حسیں تابش ادھوری رہ گئی

میں تو عادی ہوں اب اسیری کی
اب تو زنجیر کو بدل ڈالو

دل ہے بچارا، کر ماں مارا، اُس کو سہارا جانے ہے
جو ہم کو چاہت کے فلک سے ٹوٹا تارا جانے ہے

ایک جیسے تمام سینے ہیں
تم ہی تعبیر کو بدل ڈالو

جس کے نام سے سکھیاں مجھ کو اکثر چھیڑتی رہتی ہیں
اک وہ میرا حال نہ جانے، کالج سارا جانے ہے

غم کی تحریر کو بدل ڈالو
میری تقدیر کو بدل ڈالو

ہجر کا درد سجیلا بھی ہے، ہجر کا درد نشیلا بھی
ہجر کے کیا ہیں ڈھنگ نرالے، درد کا مارا جانے ہے

میں نے کیس رنگوں کی باتیں ، ذکر پھولوں کا کیا
لوگ مطلب کیا نکالیں جانے ان اشعار سے

کتنے طوفاں اُس نے سمیٹے، کتنے بھنور لیٹے ہیں
آنکھوں کے شوہ دریا میں اشکوں کا دھارا جانے ہے

ایک لمحے کی غلط فہمی کا خمیازہ ملا
عمر بھر ٹکرائیں گے، سر ہجر کی دیوار سے

بے سبب کوئی مجھ سے روٹھا ہے
سلسلہ کیا وفا کا جھوٹا

کتنی ناداں لڑکیاں بس خواب تکتی رہ گئیں
کوئی شہزادہ نہیں آیا افق کے پار سے

دل تڑھنے کی یہ نہیں آواز
ہاتھ سے گر کے شیشہ ٹوٹا ہے

ساتھ رہتے ہیں مگر اُلجھے بہت رہتے ہیں وہ
خوش جو ہو جاتے تھے پہلے ایک ہی دیدار سے

زندگی کا گلہ کروں کس سے
زندگی نے قرار لوٹا ہے

Leave a Comment