Deep quotes often delve into the mysteries of life, offering insights that challenge our perceptions and encourage us to reflect on the bigger picture. These quotes touch on the complexities of human existence, exploring themes like purpose, identity, pain, growth, and the search for meaning. They invite us to look beyond the surface of everyday life and consider the deeper truths that shape our thoughts, actions, and relationships. Whether they come from philosophers, poets, or everyday people, deep quotes have the power to stir something within us, prompting introspection and often changing the way we see the world. They remind us that wisdom isn’t always found in answers, but in the questions we dare to ask.

سُن کر آہٹ بھی تڑپ جاتا ہوں
اے دوست! مجھ سے گفتگو نہ کر

ساقی ! جام و سبو اُٹھا لے آج
دل بجھ گیا مجھے پیاس نہیں

دیکھ کر آئینے کو صورت تڑپ جاتا ہوں
آئینے کو میرے روبرو نه کر

ہم نے جس کے لئے گریباں چاک کیا
وہ دوست بھی ہمارے لئے اُداس نہیں

جس دلربا سے ملنے کی توقع نہیں
اُس ستم گر سے ملنے کی آرزو نہ کر

چھوڑ کر ساری دنیا، جس کو چاہا
اس سے ملنے کی اب آس نہیں

تلاش وفا کی جستجو نہ کر
زمانے میں خود کو بے آبرو نہ کر

زمانے کی رنگینیوں میں جی نہیں لگتا
میری تنہائی پہ میرا دل ٹھہر جائے گا

اس قدر ٹوٹ گیا ہوں ، سب سے روٹھ گیا ہوں
کسی کی بات کسی کا کہا، سنا نہیں جاتا .

زیست ہم کاٹ نہ سکیں گے
تیرا پیار جب دل میں اُتر جائے گا

شب کے اندھیرو ! آسمان کے ستارو!
مجھ سے اب اور تنہا رہا نہیں جاتا

نازک اندام اس قدر ہو تم
بات کہوں تو وجود بکھر جائے گا

کچھ اس طرح سے تباہ تو نے کیا ہے
اب مجھ سے میرا دکھ کہا نہیں جاتا

تیری محبت نے مجھے دائم کر دیا
تو چلی جائیگی، نہ میرا ذکر جائے گا

زمانے نے مجھ کو تنہا کر دیا
جگر کا درد، دل کا ویرانہ نہیں جاتا

ہم سے کچھ تمھیں سروکار نہیں ہوتا
مجھ سا عاشق کسی پہ بار بار نہیں ہوتا

تم مجھ سے بچھڑے کیوں ہو ؟
کوئی بھی اپنا محبوب کھونا نہیں چاہتا

غم غداراں، غم یاراں، غم زمانہ
مجھے نصیب کبھی، قرار نہیں ہوتا

مجھ سے تیرا بچھڑنا دیکھا نہیں جاتا
کسی کو بن وجہ رونا نہیں آتا

وہ جذبے، کہاں سے لاؤں وطن پرستی کے
اب کیوں وطن پہ تو شمار نہیں ہوتا

کون سے جذبات دل میں پل رہے ہیں
شرمائے شرمائے لگتے ہو

وہ اور تھے جن کی آگ امر خدا ہوگی
ہر آگ میرے دوست گلزار نہیں ہوتا

ہنستا کھیلنا وہ پہلا سا نہیں رہا
گھبرائے گھبرائے لگتے ہو

آج کی رات بھی ہم تنہا ہیں
دل و جگر میں درد برپا ہیں

اُٹھا رہے ہو کون سے صدمے تم
ستائے ستائے لگتے ہو

غموں کی آندھی چل رہی ہے
آنکھوں سے میرے آنسو رواں ہیں

اس دنیا میں کتنے میرے جیسے لوگ
ظاہر میں ہنستے بولتے اندر سے تنہا ہیں

ہر لمحہ نیا امتحان، ہر پل نیا دکھ
مصائب کتنے ابھی، اور سہنا ہیں

اپنے مضافات کا ذرہ ذرہ دیکھ لیا
ہر سمت مکر و فریب اور دعا ہیں

پڑھتے ہو، سنتے ہو، ملتے نہیں
دیکھ! ہم کن دکھوں میں مبتلا ہیں